گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد ،امریکہ اور پاکستان کے درمیان گزشتہ چھ دہائیوں سے جاری سرد و گرم تعلقات کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ۔ دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کا فیصلہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کا تھا لیکن اس جنگ کے اثرات سے پاکستان خود بھی محفوظ نہیں رہا ۔ دوسری طرف ایک مشترکہ دشمن کےخلاف اس لڑائی میں دونوں ممالک کے درمیان حالیہ چند ماہ میں کچھ بد گمانیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے وابستہ مائیکل اوہینلن کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ تناؤ کی ایک وجہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا انکشاف تھا۔
چند ماہ قبل امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور حال ہی میں امریکہ کی جانب سےپاکستان کی فوجی امداد روکنے کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں سردمہری کا ایک اور ثبوت قرار دیا جا رہا ہے۔ مارک کیٹز امریکی ریاست ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئےپاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ۔
واشنگٹن میں ماہرین دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں ۔مائیکل اوہنلن کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خلاف پاکستان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ، لیکن اب جبکہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کا مرحلہ وار انخلاء چاہتا ہے، پاکستان کو افغانستان میں استحکام لانے کے لیے اپنے کردار کو بھی سمجھنا ہوگا ۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو یقینا دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کی کاوشوں کو سراہنا چا ہیئے جس کے باعث پاکستانی معیشت پر خراب اثرات مرتب ہوئے۔ لیکن پاکستان کوبھی یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکہ افغانستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بعض طالبان عناصر کے خلاف پاکستان کی طرف سے سخت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے افغانوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ اس لئے افغانستان کو مستحکم بنانے اور دہشت گردی سے نجات کے لیے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ پہلے سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے ۔
This story was originally posted on VOA Urdu.