آج کے دور میں کسی بھی ملک کی ترقی اس کے توانائی کے شعبے سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں بجلی کی پیداور مانگ کے مقابلے میں بہت کم ہونےسے جہاں شہریوں کو روزانہ کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا سامناہے وہیں اس صورت حال کا اثر صنعتی شعبے پر بھی پڑ رہاہے۔ توانائی پیدا کرنے کے قدرتی وسائل کی موجودگی کے باوجود پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کیوں نہیں کر پا رہا؟ اور یہ کمی آنے والے دنوں میں اسے کن مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے؟
پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بجلی، قدرتی گیس، پٹرولیم ، کوئلے اور لکڑی پر انحصار کرتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے اور توانائی کی فراہمی کےبنیادی ڈھانچے کی موجودگی کے باوجود اس شعبے میں پاکستان کو درپیش مسائل کی وجہ یہ ہے اپنے قیام سے اب تک یہاں اس سلسلے میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔
اس وقت پاکستان کا ایک اہم مسئلہ بجلی کی طلب و رسد میں عدم توازن ہے۔ ایرم زم گاچین واشنگٹن میں توانائی کے مسائل پر کام کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو تقریبا چھ ہزار میگا واٹ کی کمی کا سامنا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں توانائی کی طلب میں اضافے کی رفتار تین گنا زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں قومی پیداوار کا زیادہ تر انحصار سروسز اور کاروباروں پر ہوتا ہے جب کہ ترقی پذیر ممالک کی معیشت صنعتی پیداوار کے گرد گھومتی ہے۔ منصوعات کی تیاری کے لیے توانائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
گاچین کہتے ہیں کہ اگر ترقی کی رفتار اور اس سے وسائل کی ضرورت میں اضافے اور توانائی کے متبادل ذرائع کی غیر متوازن منصوبہ بندی کی بات کریں تو پھر ہر کوئی اس بحران کا ذمے دار ہے ۔تاہم ابھرتی ہوئی معیشتوں کو اس کا سارا الزام دینا درست نہیں کیونکہ یہ ان کی ترقی کے عمل کا ایک حصہ ہے ۔
گاچین کے خیال میں اس عالمی مسئلے کا حل یہ ہے کہ تیل کی پیدوار بڑھائی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی قیمتوں کو طویل عرصے تک ایک مناسب سطح پر برقرار کھاجائے اور اس کے ساتھ ساتھ متبادل توانائی کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
This post was originally posted on VOA Urdu.