ایک زمانہ تھا جب پاکستانی فلم انڈسٹری کا طُوطُی بولتا تھا۔۔۔ ہر فلم ایک سے بڑھ کر ایک ہوتی تھی۔ کہانی سے لے کر مکالموں تک، فنکاروں سے لے کر اداکاری تک اور موسیقی سے لے کر گلوکاری تک، سب کچھ جیسے نگینے کی طرح جڑا ہوا۔۔۔ خوبصورت اور مبہوت کر دینے والا۔۔۔ 60ء اور 70ء کی دہائیاں جہاں پاکستان میں فلمی صنعت کی کامیابی کے حوالے سے یاد رکھی جائیں گی وہیں مورخ ان فلموں کی کامیابی کا سہرا ان موسیقاروں کے سر بھی باندھے گا کہ جن کے تخلیق کردہ گیتوں کی گونج آج بھی باقی ہے۔۔۔ یہیں کہیں ہمارے آس پاس۔۔۔ کہیں کسی کی یاد میں، کہیں کسی کے گمان میں اور کہیں کسی کے خیال میں۔۔۔ اور ایسا ممکن ہی کیسے ہے کہ اس دور کے گیتوں کی بات کی جائے اور سہیل رعنا کا ذکر نہ ہو؟۔۔۔
سہیل رعنا، جنہیں ادب سے محبت ورثے میں ملی (کہ والد شاعر تھے) مگر موسیقی سے محبت پہلی نظر کی اس محبت کی طرح دل میں کھُب گئی جو اپنا ٹھکانہ مستقل کر لیتی ہے۔۔۔ موسیقی کو معاشرے میں ایک نمایاں پہچان دلانے کے عزم کے ساتھ اس نگر میں قدم رکھا اور اپنے ٹیلینٹ کے بل بُوتے پر کامیابیاں سمیٹتے رہے۔۔۔
مگر پھر ہماری فلم انڈسٹری کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔۔۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری آہستہ آہستہ روٹھی ہوئی محبوبہ کا روپ دھارتی چلی گئی اور ایسی روٹھی کہ آج بھی ہم اور آپ اس اجڑے دیار پر نوحہ خواں ہیں۔۔۔ فلمی صنعت کی بتدریج ناکامی نے سہیل رعنا کو موسیقی سے بد دل نہ کیا بلکہ انہوں نے ایک نئے عزم کے ساتھ ٹی وی پر موسیقی کے ذریعے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔۔۔ آج بھی ان ٹی وی پروگراموں کو ایک ’اکیڈمی‘ کا درجہ دیا جاتا ہے جہاں سے پاکستان کو نازیہ حسن، ذوہیب حسن، افشاں، شہکی، عالمگیر، بنجمن سسٹرز اور عدنان سمیع جیسے نایاب ستارے عطا ہوئے۔
سہیل رعنا نے نوے کی دہائی میں کینیڈا ’ہجرت‘ کی اور یہ ہجرت بھی موسیقی سے اُنکی محبت پر کوئی بند نہ باندھ سکی اور آج بھی وطن سے ہزاروں میل دور کینیڈا میں بیٹھا یہ ’مائسٹرو‘ اپنے فن کا جادو جگا رہا ہے اور اپنے شاگردوں کو موسیقی کے اسرار و رمُوز سے آشنا کر رہا ہے۔۔۔
ہم کینیڈا گئے تو سہیل رعنا صاحب سے انٹرویو کی خواہش فطری تھی۔۔۔ ٹورنٹو میں مقیم شاعر اشفاق حسین کی مہربانی اور وساطت سے انٹرویو کا دن اور وقت طے پایا۔۔۔ سہیل رعنا صاحب اور ان کی اہلیہ اشفاق حسین کے ہاں تشریف لائے جہاں ہمیں نہ صرف ماضی کے ایک عظیم موسیقار سے ملاقات کا موقع ملا بلکہ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔۔۔
سہیل رعنا صاحب سے نشست توقع سے کہیں لمبی رہی۔۔۔ تشنگی پھر بھی برقرار رہی کہ ابھی بہت سے موضوعات پر بات نہ ہو سکی تھی۔۔۔ سہیل رعنا صاحب نے اپنی ماضی کی پٹاری سے بہت سے ایسے قصے سنائے جو ہمارے لیے نئے تھے اور جن کا تذکرہ ہم نے ان سے متعلق انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات میں نہیں دیکھا تھا۔۔۔
سہیل رعنا صاحب کی باتوں میں قدرت کی کرشمہ سازیوں کا ذکر تواتر سے رہا۔۔۔ کہاں وہ نوجوان لڑکا جس نے موسیقی کے رمُوز جاننے کے لیے ایک استاد سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کی تو استاد نے اسے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ ’موسیقی تمہارے بس کا روگ نہیں‘۔۔۔ اور کہاں وہ موسیقار جس نے پاکستان میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور ستارہ ِامتیاز کے علاوہ درجنوں قابل ِذکر ایوارڈز لینے کے ساتھ ساتھ اقوام ِمتحدہ میں ’یو این پیِس میسنجر ایوارڈ‘ بھی اپنے نام کیا ہو۔۔۔ سہیل رعنا صاحب ان سب واقعات کو ایک کڑی سے دوسری کڑی اور قدرت کی مہربانی قرار دیتے ہیں۔
اس دنیا میں اپنے فن میں یکتا تو بہت سی شخصیات ہوتی ہیں مگر ان میں سے کتنی شخصیات کسی فن کے عروج تک پہنچ کر اسے دوسروں تک منتقل کرنے کا سامان کرتی ہیں؟ اور کتنی شخصیات اپنے وطن سے دور بیٹھے ہوئے بھی نئی نسل کے لیے کسی رہبر اور کسی موسیٰ کی ضرورت کا اظہار اس انداز میں کرتی ہیں کہ جیسے یہ درد زندگی کے ایک کرب سے کم نہ ہو۔۔۔ اور جو آج بھی پاکستان جا کر نئی نسل کو سنوارنے کے لیے پر عزم دکھائی دے؟۔۔۔ سہیل رعنا صاحب کا شمار ایسی ہی تاریخ ساز شخصیات میں کیا جا سکتا ہے۔۔۔
This story was originally posted on VOA Urdu.