’بتائیں نا مدیحہ خالہ، آپ نے کس کو ٹھپہ لگایا؟‘، آئرہ کے تجسس نے ایک مرتبہ پھر میرے خیالات کا تسلسل توڑا۔۔۔ میں نے مسکرا کر اس کا گال تھپتھپایا اور بتایا کہ میں نے جمہوریت کو ٹھپہ لگایا ہے۔
واشنگٹن ۔۔۔ ’’مدیحہ خالہ، آپ ’اَمران خان‘ (عمران خان) کو ووٹ دیں گی یا پھر شیر یا تیر پر ٹھپہ لگائیں گی؟‘‘ ۔۔۔ میں پورے انہماک سے ٹی وی پر الیکشن کے غیر حتمی نتائج دیکھنے میں مگن تھی جب چار سالہ آئرہ بیگ کے اس سوال نے مجھے یک دم خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ آئرہ، میری دوست کی بیٹی ہے اور آج کل اپنے والدین کے ساتھ امریکہ کی سیر پر ہے۔
یوں تو پاکستان میں الیکشن کی گہما گہمی ہی الگ ہے لیکن پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کے دل بھی اس الیکشن میں اپنے وطن کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ ہمارے گھر میں بھی پل پل کی خبر جاننے کے لیے ٹی وی کل رات سے ایک لمحے کے لیے بھی بند نہ ہوا تھا۔ گھر میں مہمانوں کی آمد کی وجہ سے رونق بھی لگی تھی اور مختلف پارٹیوں کے بارے میں تبادلہ ِ خیالات مسلسل جاری تھے۔ کون جیت رہا ہے؟ کیوں جیت رہا ہے؟ کسے جیتنا چاہیئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن ان تبادلہ ِ خیالات میں پاکستان جا کر ووٹ نہ ڈال سکنے کا غم سب سے حاوی تھا۔ ٹی وی کے علاوہ ہم سبھی اپنے اپنے لیپ ٹاپس پر سماجی رابطے کی مختلف ویب سائیٹس اور دیگر ذرائع سے نتائج حاصل کرنے کے لیے بھی بے تاب دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔ ایسے میں آئرہ کے سوال نے نہ صرف مجھے چونکا ڈالا بلکہ یہ احساس بھی دلایا کہ یہ پاکستان وہ پاکستان نہیں جو آج سے ایک نسل پہلے تھا۔
میں آئرہ سے ایک نسل پرانی ہوں ۔۔۔ ذہن پر زور ڈالا کہ جب میں چار سال کی تھی تو کیا میں یہ جانتی تھی کہ ووٹ کیا ہے یا پھرانتخابات کس چڑیا کو کہتے ہیں؟ جواب نفی میں ملا ۔۔۔ میں نہ تو ووٹ اور انتخابات کے بارے میں کچھ جانتی تھی اور نہ ہی مجھے یہ معلوم تھا کہ ’اَمران خان‘ کون ہے یا شیر اور تیر کن بلاؤں کو کہتے ہیں؟ ۔۔۔ اور ’ٹھپہ‘ لگانے جیسا لفظ تو زندگی میں بہت دیر بعد جا کر کہیں داخل ہوا۔۔۔ حتیٰ کہ اٹھارہ برس کی ہوئی تب بھی ووٹ استعمال کرنے کا خیال نہیں آیا۔ ووٹ کیا ہوتا ہے؟ کیوں ہوتا ہے؟ کیا میرے ووٹ سے میرے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے؟ اس طرح کے سوالات پر کبھی غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سب باتیں مجھے اور میری نسل کے بیشتر لوگوں کو معلوم ہی نہ تھیں۔ اور ہوتیں بھی کیسے؟ ۔۔۔ ان باتوں کے ادراک کے لیے ملک میں جمہوریت کا پنپنا ضروری ہوتا ہے۔
اور اگر میں جمہوریت کے تصور سے ناواقف تھی تو ایسا کچھ غلط بھی نہ تھا کہ بچپن اور لڑکپن اپنے سیاستدانوں اور جرنیلوں کی کشمکش یا پھر آمریت اور جمہوریت کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل دیکھتے گزرا ۔۔۔ کبھی بے نظیر بھٹو کی حکومت گرائی گئی اور کبھی نواز شریف کو دو تہائی اکثریت کے باوجود ملک بدر کر دیا گیا۔ فوجی بُوٹ جمہوریت کے پودے کو پیروں تلے روندتے رہے، مسلتے رہے، شب خون مارتے رہے۔ عوام کو آمریت میں لپٹی جمہوریت کی ٹافی دی جاتی رہی ۔۔۔ لیکن کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آمریت میں لپٹی جمہوریت وطن ِ عزیز میں جاری اُس جمہوریت سے بدرجہا بہتر تھی جس کے سائے تلے ہم نے گذشتہ پانچ برس گزارے ہیں۔
یقینا گذشتہ پانچ برسوں میں دہشت گردی، بے روزگاری، تعلیم کے فقدان، غربت کی بڑھتی شرح، مہنگائی میں ہوشُربا اضافے، بجلی و گیس کے نایاب ہونے اور لاقونینیت جیسے مسائل میں گھری پاکستانی قوم یہ سوچنے پر ضرور مجبور کر دی گئی تھی کہ جمہوریت بہترین نہیں بلکہ ایسا ’بدترین انتقام‘ ہے جو عوام سے لیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ جمہوریت ہی تھی جس کے تسلسل میں آنے والے انتخابات نے عوام کو اتنا شعور بخشا کہ وہ اپنے ملک کی تقدیر کے فیصلے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ بھی جمہوریت ہی تھی کہ جس نے لوگوں کو انتخابات کے روز گھروں سے نکلنے اور ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔
’بتائیں نا مدیحہ خالہ، آپ نے کس کو ٹھپہ لگایا؟‘، آئرہ کے تجسس نے ایک مرتبہ پھر میرے خیالات کا تسلسل توڑا۔۔۔ میں نے مسکرا کر اس کا گال تھپتھپایا اور بتایا کہ میں نے جمہوریت کو ٹھپہ لگایا ہے۔ آئرہ کا ننھا ذہن ’جمہوریت‘ کے مفہوم سے ناآشنا تھا ۔۔۔ اگلے ہی لمحے وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ کھیل میں مگن ہو چکی تھی۔۔۔
اور میں ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے سوچنے لگی کہ میں نے واقعی اُس جمہوریت کو ٹھپہ لگایا ہے جہاں ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ کے مصداق عوام نے پیپلزپارٹی سے گذشتہ پانچ برسوں کی ناقص کارکردگی کا بدلہ لیا ہے۔ میں نے اُس جمہوریت کو ووٹ دیا ہے جہاں میں نے اپنی قوم کو پہلی مرتبہ انتخابات میں بھرپور اور عملی طریقے سے حصہ لیتے دیکھا ہے۔ میں نے اُس جمہوریت کو ووٹ دیا ہے جس نے میڈیا کے ذریعے مختلف پارٹیوں کے حوالے سے ذہنوں کے ابہام کو دور کیا ہے۔ میں نے اُس جمہوریت کو ووٹ دیا ہے جس نے ایک ہی خاندان میں مختلف لوگوں کے درمیان سیاسی پارٹیوں کو اپنے خاندانی رجحان کی بجائے، سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا شعور بیدار کیا ہے ۔۔۔ اور میں نے اُس جمہوریت کو ووٹ دیا ہے کہ جس نے میرے ملک کی چار سالہ بچی کے ذہن میں بھی ’ووٹ‘ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ جب یہ بچی اٹھارہ برس کی ہوگی، اسے جمہوریت کے معنیٰ مجھ سے بہتر معلوم ہوں گے۔ آئرہ کا پاکستان یقینا اس پاکستان سے بہتر ہوگا جو اس کے بڑوں کا تھا۔ پھر بھلا میرا ٹھپہ جمہوریت کیوں نہ ہو؟ مجھے صدر زرداری سے لاکھ اختلاف سہی لیکن میں ان کی ایک بات کی تائید کرتی ہوں، واقعی جمہوریت بہترین ’انتقام‘ ہے !!
This blog was originally posted on VOA Urdu.