گذشتہ چند دنوں میں یہ سوال پوری شد و مد سے اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستانی میڈیا چینلز ادارتی سمجھ بوجھ کی ہی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں یا پھر مالکوں کے ذاتی و کمرشل مفادات کے لیے؟ اور یہ بھی کہ میڈیا کے اس بڑے سکینڈل سے پاکستانی میڈیا کوئی سبق حاصل کرے گا بھی یا نہیں؟گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں میڈیا کے چند بڑے اداروں کے باہمی اختلافات اب بظاہر بدمزگی کی حدود کو چھوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ میڈیا اپنی یہ روش کب تک جاری رکھ سکتا ہے اور میڈیا کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت میڈیا سے منسلک صحافیوں کے ساتھ ساتھ ہر اس پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہا ہے جو خبروں کے حصول کے لیے ٹی وی چینلز کا رخ کرتا ہے۔
19 اپریل کو حامد میر پر حملے کے بعد جیو ٹی وی کی نشریات پر ابھی تک سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ قصہ اپنے کمرشل مفادات کی جنگ لڑتے اس میڈیا میں حیرت انگیز طور پر اب تک پہلے دن کی طرح نیا ہے، جہاں ایک خبر کی عمر چند بلیٹنز سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پاکستانی میڈیا کی روزانہ کی ٹی وی مجلسوں میں اب تک ان 8 گھنٹوں کی نشریات کا پوسٹ مارٹم جاری ہے، جس میں جیو ٹی وی نے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصویر لگا رکھی تھی۔
چند روز قبل وائس آف امریکہ کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں عامر لیاقت حسین اس غلطی کو ’گھناؤنی اور تکلیف دہ‘ قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ، ’میں بحیثیت جیو کے نائب صدر، پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ ہم نے اپنے ملک کی دفاعی لائن، آئی ایس آئی اور فوج کے ساتھ جو کیا وہ ہمیں نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ ہم نے بغیر تحقیق کے الزام بھی لگایا اور آٹھ گھنٹے تک ہم اسے نشر بھی کرتے رہے، اور اپنے تئیں، ہم یہ ثابت کر چکے تھے کہ جو حامد میر پر انتہائی افسوسناک حملہ ہوا اس میں غالباً ان کے انٹرویو کے مطابق جناب ظہیرالاسلام صاحب ملوث ہیں جو کہ یقیناً ایک انتہائی گھناؤنا اور تکلیف دہ الزام تھا‘۔
مبصرین نے اس موٴقف کا بھی اظہار کیا ہے کہ جیو کی غلطی میں ادارتی سمجھ بوجھ کا فقدان واضح تھا۔۔۔ کیپیٹل ٹی وی سے منسلک سینئیر صحافی، نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ جس غلطی پر اب جیو کے اعلیٰ عہدیدار ندامت کا اظہار کر رہے ہیں، اس غلطی کے ارتکاب کو ادارتی سمجھ بوجھ کی کمی قرار دینا مناسب نہیں ہوگا۔
نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ، ’آپ کا کیا خیال ہے کہ جیو نے جو اس دن ایک تماشا لگایا، اپنا بھی تماشا بنایا اور ہمارا بھی۔ جو کچھ بھی آٹھ گھنٹے تک چلتا رہا کیا وہ بغیر کسی ادارتی سمجھ بوجھ کے ہو رہا تھا۔ اس میں سو فیصد ادارتی سمجھ بوجھ شامل تھی‘۔
گذشتہ چند دنوں میں یہ سوال بھی پوری شد و مد سے اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستانی میڈیا چینلز ادارتی سمجھ بوجھ یا editorial judgment کی ہی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں یا پھر مالکوں کے ذاتی و کمرشل مفادات کے لیے؟ اور یہ بھی کہ میڈیا کے اس بڑے سکینڈل سے پاکستانی میڈیا کوئی سبق حاصل کرے گا بھی یا نہیں؟
دنیا ٹی وی کے مینجنگ ڈائریکٹر، نوید کاشف کہتے ہیں کہ، ’ہمارا جو میڈیا ہے اس میں اصلاحات کے لیے وقت درکار ہے اور میرے خیال میں یہی مواقع ہوتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے اصول وضع کیے جائیں جن میں اشتعال اور تشدد اور اس طرح کی چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھ کر غیر جانبدار رپورٹنگ کی جا سکے‘۔
مگر ایک ایسے وقت میں جب ٹی وی پر کھلے عام ایک چینل دوسرے چینل کو مناظرے کی دعوتیں دے رہا ہو، ایک دوسرے کے خلاف ’پروموز‘ اور ایک دوسرے کے صحافیوں کی تصویریں بظاہر ’اشتہاری ملزمان‘ کی طرح چلائی جا رہی ہوں، میڈیا کی حدود و قیود کا تعین کون کرے گا؟۔۔۔ نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ اس واقعے کے بعد میڈیا ہاؤسز کے لیے ایک متفقہ ضابطہ ِ اخلاق طے کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
نسیم زہرہ کے الفاظ، ’میڈیا کو کوڈ آف کنڈکٹ پر اکٹھا ہونا پڑے گا۔ یہ ایک ایسا موقع ہے کہ میڈیا میں ہم جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں خود اپنے آپ سے شرمندگی ہو رہی ہے۔ مگر اب حکومت کونسل آف کمپلینٹس کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے پی بی اے، سی پی این ای اور اے پی این ایس کو آن بورڈ لیا ہے اور وہ ایک ایسی کونسل آف کمپلینٹس بنانا چاہتے ہیں جو کہ زیادہ متحرک اور زیادہ فعال ہوگی‘۔
میڈیا کے حالیہ بحران کے بعد ’پیمرا‘ بھی تنقید کی زد میں ہے۔ دوسری طرف یہ باتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ اگر، بالفرض، جیو کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا، تو نقصان صحافت اور آزادی ِ صحافت کا ہوگا۔ سینئیر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ یہ سوچ لینا کہ جیو کی بندش سے باقی میڈیا کے لیے چیزیں آسان ہوں گی، غلط فہمی ہے۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ، ’ویسے تو جیو کے بند ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اگر جیو کا لائسنس منسوخ ہوتا ہے اور جیو بند ہوتا ہے تو اس کے دو شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ جو اتھارٹی پاکستان کے سب سے بڑے چینل کو بند کروا سکتی ہے تو باقی دیگر چینلز ویسے ہی ڈر اور خوف کا شکار ہو جائیں گے۔ گو کہ، وہ یہ سمجھیں گے کہ ان کی شاید جیت ہوئی ہے اور انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے چینل کو بند کر دیا ہے اور شاید اس کی کمرشل مارکیٹ حاصل کرلیں۔ لیکن، اس کے ساتھ ہی سخت ریگولیشنز کے بھی آنے کا امکان ہے۔ سخت قوانین آ سکتے ہیں۔ چینلز پر مزید پابندیاں سخت کی جا سکتی ہیں‘۔
میڈیا سے منسلک کچھ ماہرین اس رائے کا بھی اظہار کرتے دکھائی دئیے کہ اگر حکومت بروقت مداخلت کرتی اور اپنا کردار ادا کرتی تو میڈیا کی باہمی چپقلش اور اس بحران کو ٹالنا ممکن ہو سکتا تھا۔
This story was originally posted by VOA Urdu.