PortfolioUrduWeb Stories

مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکی کردار بعید از قیاس ہے

مسئلہِ کشمیر اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود پاکستان اور بھارت کا وجود۔ پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا ہے۔ ماضی میں کشمیر کے حوالے سے کیے جانے والے معاہدے اور اقوام ِ متحدہ کی قراردادیں اس حوالے سے بے نتیجہ رہی ہیں۔ جنوبی ایشیائی امور کی ماہر لیسا کرٹس کے نزدیک کشمیر دونوں ممالک کے لیے قومی تشخص کی علامت ہے۔

کشمیر پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے ہی قومی تشخص کی علامت رہا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں پاکستان مسلمانوں کی سرزمین ہے اس لیے وہ جموں و کشمیر کو مسلمان اکثریت ہونے کے سبب اسے اپنا قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو درست سمجھتے ہیں۔ جبکہ بھارت جومختلف مذاہب کی آبادی والا ملک ہے اور جہاں دنیا کی تیسری بڑی مسلمان آبادی بستی ہے، اس خیال کو مکمل طور پر غلط قرار دیتا ہے جو اس کے اپنے ہی قومی تشخص اور سیکولر ملک ہونے پرکسی ملامت سے کم نہیں۔

حال ہی میں بھارت کے زیر ِ انتظام کشمیر میں ہونے والی پر تشدد کارروائیوں اور بھارتی فوجیوں کی جانب سے سو سے زیادہ نوجوان کشمیریوں کی ہلاکت نے اس مسئلے کی شدت کو دنیا کے سامنے دوبارہ اجاگر کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر ِ خارجہ شاہ محمود قریشی گزشتہ ہفتے امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اسٹرٹیجک مذاکرات کے دوران امریکہ پر مسئلہ ِ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے پر زور دیتے ہوئے دکھائی دیے۔

2008ء میں صدر اوباما اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران کشمیر کو اہم مسئلہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ صدر بننے کے بعد وہ مسئلہ ِکشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت پر دباؤ ڈالیں گے۔ مگر کیا ان کی صدارت کے دو سال بعد کے امریکی منظرنامے میں اس وعدے کی باز گشت کہیں دکھائی دیتی ہے؟ سابق امریکی سفیر ہورڈ شیفر اس خیال کی نفی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے مسئلہِ کشمیر پر خاموشی اور پس و پیش کا انداز پاکستان کے لیے نہایت پریشان کن جبکہ بھارت کے لیے ب ِ اطمینان بخش ہے۔ اوباما نے صدر بننے سے پہلے اس سلسلے میں کیے جانے والےاپنے وعدے کی پاسداری نہیں کی۔ انہوں نے اپنے دور ِ صدارت کے آغاز میں ہی یہ جان لیا تھا کہ کشمیر میں امریکی کردار کی بھارتی حکومت سختی سے مخالفت کرے گی۔

ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اور پاکستان کے درمیان اسٹرٹیجک ڈائیلاگز چل رہے ہیں۔ کیا پاکستان امریکہ کو مسئلہ ِ کشمیر کے لیے ثالثی کرنے اور بھارت کو اس کے حل کے لیے میز پر بیٹھنے پر مجبور کرسکے گا۔ ماہرین اس بارے میں زیادہ پر امید دکھائی نہیں دیتے۔

ہورڈ شیفر کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے نقطہ ِ نظر سے مسئلہ ِ کشمیر بہت پرانا ہونے کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے بہت پیچیدہ مسائل بھی لیے ہوئے ہے۔

جب 1972ءمیں بھارت اور پاکستان نے اس مسئلے کو حل کرنے کا عندیہ دیا تھا تبھی واشنگٹن اس مسئلے سے الگ ہو گیا تھا اور چاہتا تھا کہ دونوں ممالک اس کی مدد کے بغیر یہ مسئلہ خودہی حل کریں۔ اب بھی واشنگٹن کی پالیسی یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت یہ تنازعہ امن و سکون سے آپس میں کشمیریوں کے جذبات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے کریں۔

پاکستان کی جانب سے کشمیر کے مسئلے پر دوبارہ آواز بلند کرنے کو جنوبی ایشیا میں بسنے والے مسلمان خوش آئند تو قرار دیتے ہیں، مگر کیا دہشت گردی اور معاشی بدحالی کے مسائل میں گھرا پاکستان اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟ امریکی ماہرین کے نزدیک اس کا جواب ہے۔۔ نہیں۔

پاکستان کی جانب سے مسئلہ ِ کشمیر کو دنیا اور بالخصوص امریکہ کے سامنے اجاگر کرنے سے کیا واقعی امریکہ ثالثی کے لیے اور بھارت مذاکرات کی میز تک آنے پر آمادہ ہو جائے گا۔ واشنگٹن کے ماہرین ان خیالات کو فی الوقت خوش کن اور بعید از قیاس قرار دیتے ہیں۔

This story was originally posted on VOA Urdu.

Leave a Reply

Your email address will not be published.