Israel TraveloguePortfolioUrdu

‘شابات’ اور مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ‘کنیستہ القائمہ’

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
قسط نمبر 6

اگلی صبح نماز ِفجر کی ادائیگی کے بعد ہوٹل واپسی پر کچھ دیر کمر سیدھی کرنے کا ارادہ تھا۔ عبدالقادر کو بتایا کہ وہ آرام سے دوپہر میں آئے۔ ہفتے کے روز یروشلم ویسے بھی قدرے سکون میں ہوتا ہے۔ پچھلی قسط کے آخر میں ’شابات‘ یا ’یوم السبت‘ کا ذکر ہوا تھا، اسی کی مناسبت سے یہودیت میں ہفتے کا روز آرام اور عبادت کا دن مانا جاتا ہے۔

شابات والے روز کا ناشتہ
شابات والے روز کا ناشتہ

کوئی نو بجے کے قریب میں ہوٹل کی پہلی منزل پر واقع ریسٹورنٹ پہنچی جہاں صبح سات سے دس بجے تک ناشتے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ چائے بنانے کے لیے چائے اور کافی کی مشین کی طرف بڑھی تو پتہ چلا کہ مشین بند ہے۔ بیرے سے پوچھا کہ ’کیا مشین خراب ہے؟‘ تو آگے سے جواب ملا، ’نہیں، آج شابات ہے‘۔ ’ہیں؟ شابات ہے، کیا مطلب؟‘۔ بیرے نے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا، ’آج شابات ہے، آج کے روز کوئی گرم چیز کھائی پی نہیں جا سکتی‘۔ میں نے میز پر نظر دوڑائی، تمام ایسے کھانے تھے جنہیں تازہ نہیں پکایا گیا تھا یا جنہیں چولہے پر گرم نہیں کیا گیا تھا۔ میز زیادہ تر پھل، مچھلی، پنیر، زیتون، سلاد، ڈبل روٹی، کارن فلیکس، ٹھنڈے دودھ اور کیک پیسٹری سے سجائی گئی تھی۔ ’شابات‘ میں جمعے کی شب سے لے کر ہفتے کی شب تک یہودیوں کے چولہے ٹھنڈے رہتے ہیں اور کچھ نہیں پکایا جاتا اور نہ ہی کوئی چیز مائیکروویو میں گرم کی جا سکتی ہے۔ مجھے اس اصول نے کچھ چکرا دیا کہ کھانے کی قربانی تو ٹھیک ہے مگر چائے؟ چائے کے بغیر دن کیسے گزرے گا؟۔ سوچا، نیچے واقع بن یہودا مارکیٹ جاتی ہوں وہاں کسی نہ کسی کیفے میں چائے یا کافی کی ایک پیالی تو مل ہی جائے گی۔ مگر ہائے رے قسمت، دس پندرہ منٹ تک اکا دکا کھلے ہوئے کیفے اور کافی شاپ سے گرم چائے اور کافی کے سوال پر صرف ’گھوریاں‘ اور سخت لہجے میں ’آج شابات ہے‘ جیسے جواب ہی میسر آئے۔


ہمیں چائے کی یہ قربانی ہفتے کی شب اس وقت تک دینا تھی جب تک کہ آسمان پر تین ستارے نہیں ظاہر ہو جاتے، جس کے بعد شابات توڑا جاتا ہے۔ روایتی طور پر شابات پر موم بتیاں جلائی جاتی ہیں اور دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ آج ہمیں مسیحی مذہب میں عقیدت کا نشان سمجھے جانے والے کنیستہ القائمہ اور یہودیوں کی دیوار ِگریہ جانا تھا۔

تقریبا ساڑھے گیارہ بجے ہم ہوٹل سے قدیم یروشلم کے لیے نکلے۔ آج بھی مجھے عبدالقادر کے بیٹے وسیم کی سفری رہنمائی میسر تھی۔ ہماری پہلی منزل کنیستہ القائمہ تھا جو کہ یروشلم کے قدیم شہر کے ’حارہ النصاری‘ یا ’کرسچن کوارٹر‘ میں واقع ہے۔ حارہ النصاریٰ کو کنیستہ القائمہ کے ارد گرد آباد کیا گیا تھا۔ آج یہاں قدیم یروشلم کے دیگر کوارٹرز کی طرح بازار آباد ہے جس میں طرح طرح کی دکانیں، کیفے اور ریسٹورنٹس وغیرہ موجود ہیں۔ اور اسی بازار سے ہوتے ہوئے ایک تنگ گلی کے اختتام پر ایک دروازے سے اندر داخل ہو کر آپ کے سامنے کنیستہ القائمہ کی عمارت آن موجود ہوتی ہے۔ وہی عمارت جہاں عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا۔

وہ راستہ جہاں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کنیستہ القائمہ تک لایا گیا، جبل الزیتون میں کلیسہ الآلام سے شروع ہو کرکنیستہ القائمہ پر ختم ہوتا ہے، یہ راستہ Via Dolorosa اور عربی میں ’طریق الالام‘ کہلاتا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’شاہراہ ِالم‘ یا ’شاہراہ ِکرب‘ کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ طریق الالام کے چودہ پڑاؤ ہیں اور ہر پڑاؤ کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس راستے سے گزرنے اور دشواریوں کی کوئی المناک کہانی منسلک ہے۔ مثال کے طور پر روایات کے مطابق پہلا پڑاؤ وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت کی سزا سنائی گئی اور رومی سپاہیوں نے آپ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ دوسرے پڑاؤ پر حضرت عیسیٰ کو بھاری صلیب تھمائی گئی اور ان کے سر پر کانٹوں کا تاج پہنایا گیا۔ جناب ِمسیح علیہ السلام نے صلیب اپنی کمر پر لاد کر تقریبا چھ سو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ تیسرا پڑاؤ وہ مقام ہے جہاں جناب ِمسیح علیہ السلام پہلی مرتبہ نڈھال ہو کر گر پڑے تھے۔ چوتھا پڑاؤ وہ مقام تھا جہاں بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ہوئی، آٹھویں پڑاؤ پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے نیک خواتین کے ایک گروہ کو جو آپ کی پیروکار تھیں، رک کر مختصر درس دیا تھا۔ آخری پانچ پڑاؤ کنیستہ القائمہ میں موجود ہیں۔

وقت کی تنگی کے باعث میں طریق الالام کے اس راستے پر نہ جا سکی جہاں سے جناب ِمسیح علیہ السلام گزرے تھے۔ ہم حارة النصاریٰ سے ہوتے ہوئے کنیستہ القائمہ جا پہنچے جہاں سیکورٹی کے انتظامات مسجد ِاقصیٰ اور دیوار ِگریہ کی نسبت بہت کم تھے۔ تینوں ابراہیمی مذاہب کے یہ تین تاریخی مقامات یعنی مسجد ِاقصیٰ، کنیستہ القائمہ اور دیوار ِگریہ ایک کلومیٹر کے اندر اندر واقع ہیں۔ تینوں کی تاریخ جدا اور تینوں کے پیروکار مختلف۔ مگر یروشلم کے اس قدیم شہر نے ابراہیمی مذاہب کے ان تین مراکز کو ایک ساتھ باندھ رکھا ہے۔

کنیستہ القائمہ میں داخل ہوں تو پہلی نظر ایک بڑے سےگلابی رنگ کے پتھر پر پڑتی ہے جسے انگریزی میں Stone of Anointing کہا جاتا ہے۔ عیسائی عقیدے کے مطابق یہی وہ مقام ہے جہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے جسد ِخاکی کو دفنانے کے لیے تیار کیا گیا۔ عیسائی عقیدت مند اس مقام پر غم سے نڈھال ہو کر پتھر کو چوم رہے تھے۔


یہاں سے بائیں ہاتھ کو جائیں تو وہ مقام آتا ہے جہاں بی بی مریم نے اپنی بہن اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروکار خاتون جن کا نام تاریخ مریم میگدالین بتاتی ہے کے ہمراہ سیدنا مسیح علیہ السلام کو دفن ہوتے دیکھا تھا۔ اسے انگریزی میں The Chapel of Three Marys اسی نسبت سے کہا جاتا ہے۔ مسیحی اس جگہ پر اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے موم بتیاں جلاتے ہیں۔

یہاں سے قدرے فاصلے پر وہ مقام ہے جہاں مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دفن کیا گیا تھا چونکہ دوپہر کا وقت تھا اس لیے مرقد کے اندر جانے والی قطار لمبی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں باری آگئی، اس مرقد میں مسیحی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر گزرے رنج و الم کو محسوس کرتے ہوئے گریہ و زاری کرتے ہیں۔

کنیستہ القائمہ سے نکلے تو دوپہر ڈھل رہی تھی۔ وسیم حارة النصاری کے بازار میں موم بتیوں کی ایک دکان کے سامنے کھڑا میرا منتظر تھا۔ وسیم اپنے باپ کی طرح خوش اخلاق ہے اور مستقبل میں یروشلم میں ایک بڑی ٹور گائیڈ فرم کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس شہر میں عرب مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت اسی کام سے منسلک ہے۔ ’کہیئے، کیسا لگا آپ کو کنیستہ القائمہ؟‘ وسیم نے مسکرا کر پوچھا۔ ’اچھا لگا، کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ہی پیغمبر سے دو مذاہب کے دو مختلف رشتے ہیں۔ اور انہی دونوں رشتوں کی ایک جھلک میں اندر دیکھ کر آئی ہوں۔ مسیحی، جن کے لیے اس جگہ پر حاضری حج ِبیت اللہ کے متوازی حیثیت رکھتی ہے۔ اور مسلمان، جو یہ نہیں مانتے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا‘۔

جاری ہے۔۔۔

Episode 6 of the Israel/Palestine Travelogue originally posted on VOA Urdu.

Leave a Reply

Your email address will not be published.