گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
قسط نمبر 10
اگلی صبح سردی زیادہ زور پکڑ چکی تھی مگر ہمیں اس کی پرواہ نہ تھی کیونکہ آج ہماری منزل سطح ِسمندر سے بہت نیچے واقع شہر اریحا اور بحیرہ ِمردار تھا۔ تقریباً دس بجے عبدالقادر آن پہنچا۔ آج گاڑی میں فاطمہ اور عبدالقادر کے جڑواں بیٹے وسیم اور محمود اور پوتا عابد جسے پیار سے عبود کہتے تھے، بھی موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار کیے جانے والے شہر اریحاء کی طرف رواں دواں تھے۔
راستے میں رک کر عبدالقادر نے کھانے پینے کا سامان لیا اور ہم سب لوگ گاڑی میں ہی گویا پکنک منانے لگے۔ بالکل ایسا ماحول جیسے پاکستان میں ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہوئے ہوتا ہے۔ خوش گپیاں، کھانا پینا اور اونچی آواز میں عربی گانے۔ میں نے سوچا عربوں میں اور ہمارے نظامِ خاندان میں کتنی مماثلت ہے۔ عبدالقادر نے بتایا کہ اسکی بہن اریحاء میں رہتی ہے اور یروشلم میں جنم لینے کے باوجود عبدالقادر کی بہن کے لیے یروشلم کے دروازے بند ہیں۔ اس کے پاس اسرائیلی دستاویز نہیں ہے جس کے بوتے پر وہ یروشلم داخل ہو سکے، اسی لیے اب وہ فلسطینی شہر اریحاء میں اپنے خاندان کے ہمراہ زندگی گزار رہی ہے۔
اریحاء جسے انگریزی میں Jericho کہا جاتا ہے، پہنچتے پہنچتے سردی کا نام و نشان مٹ چکا تھا بلکہ ہوا میں لُو کی ہلکی ہلکی تمازت محسوس ہونے لگی اور یہ دسمبر کے شروع کے دن تھے۔ اریحاء سطح ِسمندر سے 846 فٹ نیچے ہے اور دریائے اردن کے کنارے آباد ہے۔ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں یہ شہر اسرائیل کے زیر ِنگیں آگیا مگر 1994ء میں اوسلو معاہدے کی رُو سے اسرائیل نے اس کا قبضہ واپس فلسطین کو دے دیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اریحاء کی آبادی تقریبا 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور اریحاء کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔گو کہ اریحاء کے باشندوں کا ماننا ہے کہ اریحاء ہی دنیا کا قدیم ترین شہر ہے مگر دمشق (شام)، ایتھنز (یونان)، بیروت (لبنان)، الاقصر (مصر)، سکندریہ (مصر)، وارانسی (بھارت) جیسے شہر بھی ’دنیا کے قدیم ترین شہر‘ کے عنوان کے دعوے دار دکھائی دیتے ہیں۔ اریحاء مجھے یروشلم سے قدرے مختلف لگا۔ یہاں پر عمارتوں کا انداز ِتعمیر جدید اور مکین قدرے خوشحال دکھائی دیئے
عبدالقادر کی اہلیہ اور بچوں کو ان کی پھوپھی کے گھر اتار کر ہماری اگلی منزل دریائے اردن پر واقع وہ مقام تھا جہاں مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بپتسمہ (غسلِ پاکیزگی) حاصل کیا تھا۔ دریا کے کنارے بہت سے مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں یہاں غوطے لے رہے تھے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق یسوع مسیح نے اس مقام پر یوحنا John the Baptist کے ہاتھوں بپتسمہ حاصل کیا۔ اب دنیا بھر سے مسیحی اس مقام پر آتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں یہاں پر بپتسمہ اور غسل ِتقدیس کرتے ہیں۔
اب ہم بحیرہ ِمردار کی جانب رواں دواں تھے جو کہ سطح ِسمندر سے ایک ہزار فٹ سے بھی نیچے واقع ہے۔۔۔ کہا جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پر حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو عذاب دیا گیا تھا۔ہماری اگلی منزل صحرائے یہودا میں اس جلیل القدر نبی کا مرقد تھا جسے ’کلیم اللہ‘ کا لقب عطا کیا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے بارہا کلام کا شرف نصیب ہوا اور اللہ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزے بھی عطا کیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مرقد ِعالیہ صحرائے یہودا میں یروشلم سے قدرے باہر نکل کر اور بحیرہ ِمردار سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ عبدالقادر نے تنگ سے موڑ پر گاڑی ڈالی اور ہم ایک سادہ سی عمارت کے سامنے پہنچ گئے جس پر ’مسجد و مقام النبی موسی علیہ السلام‘ لکھا تھا۔ دوپہر ہو چلی تھی اور مرقد پر زیادہ لوگ نہیں تھے۔۔۔ عمارت میں داخل ہوکر اندر بائیں جانب واقع مسجد کے اندر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مرقد ہے۔ مسجد کے دروازے پر تالا پڑا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک نوجوان لڑکا آیا جو بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ اس نے مسجد کا تالا کھولا اور ہمیں اندر جانے کی اجازت دی۔ ہم نے نوافل ادا کیے اور فاتحہ پڑھ کر باہر نکل آئے۔
سیاح یہاں بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ ہم بھی نیچے ساحل ِسمندر کے کنارے چل پڑے، یہاں پر موجود سیاح ساحل پر موجود کیچڑ کو اپنی جلد کے لیے اچھا سمجھتے ہیں اور اسکی لیپا پوتی کرکے بحیرہ ِمردار پر بیٹھ کر دھوپ سینکنا پسند کرتے ہیں۔
بحیرہ ِمردار دراصل ایک نمکین جھیل ہے جو اردن، اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ لگتی ہے۔ اس کا نام بحیرہ ِمردار اس نسبت سے پڑا کہ اس 50 کلومیٹر لمبی جھیل میں موجود نمکیات کے باعث کوئی جاندار، چرند و پرند یہاں آباد نہیں ہو سکتا۔ اس جھیل میں موجود نمکیات اسے تیرنے کے لیے ناممکن بنا دیتے ہیں۔ دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں اور سطح آب کے اوپر لیٹے رہنے کا لطف اٹھاتے ہیں۔ ہم نے یہاں پر جلدی جلدی چند تصاویر کھینچیں کیونکہ ذہن میں یہ بات موجود تھی کہ ایسے مقام پر جہاں اللہ کا عذاب نازل ہوا ہو، وہاں سے جلد از جلد نکل جانا ہی بہتر ہے۔
شام کے سائے بڑھتے جا رہے تھے، چار بجے کے قریب عبدالقادر نے گاڑی کا رخ واپس اریحا موڑا جہاں عبدالقادر نے ایک مقامی عرب ہوٹل میں ہمیں عشائیہ دیا۔ کھانا سادہ مگر عمدہ تھا۔ عرب بھی ہماری طرح گوشت خور ہیں اور کباب بہت پسند کرتے ہیں۔ مغرب ہو چکی تھی، فاطمہ نے کچھ خریداری کرنی تھی اور یوں اسی بہانے ہم اریحاء کے مشہور بازار ’سوق اریحا‘ پہنچ گئے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم پنڈی کے راجہ بازار میں آگئے ہوں۔ یہاں کی دکانوں کی ایک خاص بات یہاں پر خواتین دکانداروں / سیلز گرلز کی موجودگی تھی جو خالص اور تیز عرب طرز کے میک اپ میں تیار ہو کر، سروں پر دوپٹے پہنے دکانوں میں موجود گاہکوں کے ساتھ بھاؤ تاؤ کر رہی تھیں۔ ایک دکان میں داخل ہوکر اس وقت حیران رہ گئی جب فلسطینی دکاندار کو بالی وڈفلم دیکھنے میں مگن پایا۔ پوچھا، ’ہندی فلمیں پسند ہیں؟‘ تو آگے سے جواب آیا، ’جی ہاں، اور بریانکا شوپرا (پریانکا چوپڑا) میری پسندیدہ فنکارہ ہے‘۔ ایک دکان میں تو پاکستان کا مشہور سرمہ بھی دکھائی دیا۔ جگہ جگہ چھابڑیوں اور ریڑھیوں پر اسی طرح فلافل، شاورمے اور مختلف انواع و اقسام کے کھانے دکھائی دئیے جیسا کہ پاکستان میں دکھائی دیتے ہیں۔
رات کے تقریبا نو بجے ہم نے واپس یروشلم کی راہ پکڑی۔ ابھی ہوٹل جا کر سامان بھی پیک کرنا تھا کہ اگلے روز دوپہر کو بارہ بجے ہم نے اس شہر ِبے مثال کو الوداع کہہ کر واپس امریکہ کی راہ لینی تھی۔
جاری ہے۔
Episode 10 of the Israel/Palestine Travelogue originally posted on VOA Urdu.