آج صبح چار بجے کے لگ بھگ میری آنکھ ایس ایم ایس کی مخصوص رِنگ ٹون سے کھلی۔ ’اللہ خیر کرے‘ کہتے ہوئے میں نے فون اٹھایا اور اَدھ کُھلی آنکھوں سے پیغام پڑھنے کی کوشش کی۔۔۔ ایک پرانی دوست کی جانب سے آئے پیغام نے آن ِ واحد میں میری نیند ختم کرکے میرے حواسوں کو بیدار کر ڈالا۔۔۔ میں کتنی ہی دیر تک فون کی سکرین تکتے ہوئے سوچتی رہی کہ اگر اس کہانی کا انجام یہی ہونا تھا تو ایسا پہلے ہی کیوں نہ ہوگیا؟
عالیہ (فرضی نام) میری پرانی دوست ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ میری ایک پرانی جاننے والی ہے۔ ہم دونوں جدّہ میں سکول کے زمانے میں اکٹھے ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ اکٹھے میڑک کیا اور ایف ایس سی بھی۔ اس کے بعد سبھی کی زندگی بدل گئی۔ میں جدہ سے پاکستان اور پاکستان سے امریکہ پہنچ گئی۔ اور باقی تمام کلاس فیلوز کو بھی زندگی کہیں سے کہیں اور کسی نہ کسی طرف لے گئی۔۔۔
ایک سال پہلے جب عالیہ کی جانب سے مجھے فیس بک پر دوستی کا پیغام ملا تو میں ایک لمحے کو حیرت میں پڑ گئی کہ میں اس نام کی کسی خاتون سے واقف نہیں تھی؟ ۔۔۔ مگر فیس بک بتا رہا تھا کہ سکول کے زمانے کے بہت سے لوگ میرے اور عالیہ کے مشترکہ دوست تھے۔ یوں میں نے عالیہ کو فیس بُک پر شامل کیا، معلوم ہوا کہ ہم سکول میں اکٹھے تھے۔ پرانے قصے کہانیاں دہرائی گئیں۔۔۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ عالیہ شادی کے بعد نہ صرف امریکہ آگئی تھی بلکہ ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں رہ رہی تھی۔ جو واشنگٹن سے تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ بہت مرتبہ ارادہ باندھا کہ ایک دوسرے کے گھر کا چکر لگایا جائے لیکن نہ جانے کیوں جب بھی ملاقات کی بات ہوتی مجھے یوں لگتا کہ جیسے عالیہ اس بارے میں گریز کا شکار تھی۔
کچھ عرصہ بات چیت کے بعد جب تکلف کی دیوار پگھلنا شروع ہوئی تو عالیہ کی زندگی کی کئی پرتیں کھلتی چلی گئیں اور اُس کا گریز سمجھ آنے لگا۔ عالیہ کو اپنے گھر میں چند دشواریوں کا سامنا تھا۔ اسے اپنے شوہر کا اعتماد حاصل نہ تھا جبکہ ساس اور نند کا رویہ بھی کچھ اچھا نہ تھا۔ یوں عالیہ نے اپنی زندگی کا محور اپنے ڈیڑھ سالہ بیٹے کو بنا لیا تھا۔۔۔
میاں بیوی میں جھگڑے معمول کی بات ہیں۔ کیا ان جھگڑوں کو باہمی رضامندی سے ختم نہیں کیا جا سکتا؟ میں نے عالیہ کو صلاح دی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ کر افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی کوشش کرے۔ لیکن عالیہ کے مطابق اس کا شوہر مکالمے کی بجائے ہر بات کا حل مار پِیٹ سے نکالنے پر یقین رکھتا ہے۔۔۔ ایک دو مرتبہ عالیہ نے مجھے اپنی تشدد زدہ تصویریں بھی بھیجیں جس کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ وہ بے چاری واقعی ذہنی طور پر بیمار شخص کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بہت کہنے کے باوجود بھی عالیہ نے یہ معاملات اپنے والدین سے چھپائے کہ وہ انہیں اپنے مسائل سنا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
عالیہ ہمیشہ مجھ سے خود ہی رابطہ کیا کرتی کیونکہ اس کا فون زیادہ تر اس کے شوہر کے پاس رہتا تھا۔۔۔ دیار ِ غیر میں میرے علاوہ اسکا کوئی غم گسار بھی نہ تھا۔ یوں، وقتاً فوقتاً فون کالز اور پیغامات کے ذریعے وہ مجھے بتاتی رہتی کہ اس کی زندگی میں کیا چل رہا ہے۔ شوہر نے کیا کہا؟ گھریلو حالات کیسے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ آہستہ آہستہ حالات عالیہ کے قابو سے باہر ہو گئے۔۔۔ اب اسکا شوہر اسے باقاعدگی سے مارنے پیٹنے لگا تھا۔ وہ دفتر جاتے ہوئے عالیہ کو گھر میں بند کر جاتا اور ہر وقت دھمکی دیتا کہ میں گھر میں ’سرویلینس کیمرے‘ لگاؤں گا تاکہ مجھے معلوم ہو کہ تم پورا دن گھر پر کیا کرتی ہو؟۔۔۔
بالآخر ایک دن میں نے اُسے پولیس سے مدد لینے کا مشورہ دیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اب وہ پاکستان یا سعودی عرب میں نہیں بلکہ امریکہ میں تھی۔ جہاں اسے بہت سے حُقوق میسر تھے۔ مگر عالیہ کے قطعی لہجے نے مجھے حیران کر دیا تھا، ’میں پولیس کی مدد نہیں لینا چاہتی۔ میں نے اپنے والدین کو یہ صورتحال بتائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم کسی بھی طرح اس شادی کو چلانے کی کوشش کرو، کیونکہ ہم تمہیں اپنے گھر میں ’خوش‘ اور ’آباد‘ دیکھنا چاہتے ہیں‘۔۔۔ اس کے بعد بحث کی گنجائش کہاں تھی؟
کاش اس کے والدین سمجھ سکتے کہ اپنے آپ کو ’خوش‘ اور ’آباد‘ رکھنے کے لیے ان کی بیٹی پل پل کن عذابوں سے گزر رہی ہے؟ کس طرح دیار ِ غیر میں وہ اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہے۔۔۔ لیکن شاید عالیہ نے بھی’خوش‘ رہنا سیکھ لیا تھا۔۔۔ اب وہ مجھے اپنے شوہر کے تشدد کے قصے بھی نہیں سناتی تھی۔ غالباً، عالیہ میرے ان مفت مشوروں سے بیزار ہو گئی تھی جو اُسے ’بغاوت‘ پر اکساتے تھے۔ جب جب وہ فون پر مجھے اپنے شوہر کے تشدد کے واقعات سناتی، میں اسے پُولیس کو فون کرنے کا مفت مشورہ دیتی۔ کبھی پیار سے، کبھی جھنجھلاتے ہوئے اور کبھی غصے میں۔۔۔ عورت کے حُقوق، امریکہ اور سعودی عرب یا پاکستان میں عورتوں کے حُقوق کا موازنہ۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔ مگر عالیہ کی طرف سے ڈھاک کے وہی تین پات رہتے، ’مدیحہ، میں اپنا گھر بچانا چاہتی ہوں‘۔۔۔ اور اس کے آگے تمام حُجت اور تمام بحث دھری کی دھری رہ جاتی۔۔۔
کبھی کبھی مجھے اپنا آپ ہی بُرا لگنے لگتا، مجھے یوں محسوس ہوتا کہ ایک نیک سیرت اور مشرقی اصولوں کی پاسداری کرنے والی لڑکی کو ورغلانے پر مجھے اللہ میاں سے سزا ضرور ملے گی۔۔۔ مگر پھر چند دن بعد اس کا فون آجاتا اور وہ شوہر کی طرف سے دئیے جانے والے کسی نئے ذہنی کچوکے یا جسمانی تشدد کا قصہ بیان کرتی اور میں پھر سے لکیر پیٹنا شروع کردیتی۔۔۔ ’اپنا فیصلہ کرلو‘، ’پولیس کی مدد لو‘، ’یہ سعودیہ یا پاکستان نہیں ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
لیکن آج صبح اس کے پیغام نے یہ بحث تمام کر دی۔۔۔ کل رات عالیہ کے شوہر نے اسے تین طلاقیں دے کر اپنا راستہ ناپ لیا تھا۔۔۔ میں جو ہر وقت عالیہ کو نصیحت کرتی رہتی تھی اب تک اس کے پیغام کا جواب دینے کی ہمت نہیں کر سکی ہوں۔۔۔
صبح سے جیسے میرے دل پر ایک بوجھ سا دھرا ہے جو سرکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔۔۔ بار بار یہی لفظ میرے ذہن میں گونجتے ہیں، ’ہم تمہیں اپنے گھر میں ’خوش‘ اور ’آباد‘ دیکھنا چاہتے ہیں‘۔۔۔ اور میں سوچ رہی ہوں کہ یہ صرف عالیہ کے والدین کی دُعا تو نہیں۔۔۔ ہمارے معاشرے میں تو سبھی والدین اپنی بیٹی کو اسی دعا کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔
لیکن پھر بھی نہ جانے کیا وجہ ہے کہ ان کی دعائیں قبولیت کا درجہ اختیار نہیں کر پاتیں؟۔۔۔ ’عورت فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس پاکستان میں جنوری سے جون کے درمیان عورتوں پر تشدّد کے 4,585 واقعات درج کیے گئے۔ یہ شرح 2011ء کے مقابلے میں 7٪ زیادہ تھی۔ ان واقعات میں عورت کے ساتھ زیادتی، غیرت کے نام پر قتل، زبردستی کی شادی، ذہنی اور جسمانی تشدّد، جسمانی ساخت خراب کرنا، خوراک نہ دینا، ہڈیاں توڑ دینا اور سر یا بھنوؤں کے بال مونڈھ دینے جیسے واقعات شامل تھے۔۔۔
کیا ان سب عورتوں کے والدین نے بھی انہیں ’خوش‘ اور ’آباد‘ رہنے کی دعا نہ دی ہوگی؟ اور کیا پتہ عالیہ کی طرح یہ عورتیں بھی اسی دعا کے ’حصار‘ میں ہونے کی وجہ سے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کسی سے بھی بیان نہ کر سکیں؟ کسی کی مدد حاصل نہ کر سکیں؟
میں صبح سے سوچ رہی ہوں کہ آخر کیوں ہم اپنے گھر سے بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے یہی تلقین کرتے ہیں کہ اب شوہر کے گھر سے تمہارا جنازہ ہی نکلے گا؟ ہم اپنے گھروں سے بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے یہ مان کیوں نہیں دیتے کہ اگر حالات تمہاری برداشت سے باہر ہوجائیں تو پیچھے پلٹنے کے تمام راستے کھلے پاؤگی، کہ ہم نے تمہیں بیاہا ہے دفنایا نہیں
This blog was originally posted on VOA Urdu.