سمندر اور انسان کا رشتہ بہت پرانا ہے ۔ سمندر قبل از تاریخ کے دور سے انسان کے لیے خوراک کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے اور اس دور جدید میں بھی غیر ملکی تجارت کا زیادہ تر انحصار سمندری گذرگاہوں پر ہی ہے۔ انسان ہزاروں برسوں سے سمندر کی دنیا کا کھوج لگانے اور اسے تسخیر کرنے کی جستجو کررہاہے ،لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک سمندری دنیا کے زیادہ تر حصے انسان کی تحقیق و جستجو کے منتظر ہیں۔سمندرکی دنیا کتنی وسیع ہے او راب تک انسان اس کے کن کن گوشوں سے پردہ اٹھاچکا ہے؟ اس کی ایک بڑی جھلک ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں قائم ایکوریم سے ہوتی ہے۔ ان دنوں یہاں سمندری دنیا کے حوالےسے مختلف نمائشوں کا اہتمام کیاگیا ہے جو سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب کھینچ رہی ہیں۔
دو عمارتوں پر مشتمل اس ایکویریم میں داخل ہو کر آپ اپنے کو سمندری ماحول کا ایک حصہ ہی تصور کرتے ہیں۔ یہاں آپ کو نہ صرف طرح طرح کی مچھلیاں بلکہ پانی میں رینگنے والے جانور، مختلف اقسام کے پرندے اور دنیا سے ناپید ہوتے وہ جانور بھی دکھائی دیں گے جو شاید اس سے پہلے آپ نے کہیں نہ دیکھے ہوں۔ایکوریم کے ان جانداروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے موجود عملہ بےحد تربیت یافتہ ہے۔
یہاں کا ایک حصہ ڈالفن کے لیے مخصوص ہے ، جہاں ڈولفن شو منعقد کیا جاتا ہے۔ ایک نمائش میں جیلی فش کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں جبکہ تیسرا حصہ آسٹریلیا کے بارے میں ہے جہاں اس منفرد بر ِ اعظم سے مختلف جاندار لا کر رکھے گئے ہیں۔ بالٹی مور نیشنل ایکوریم میں آٹھ ٕڈولفن موجود ہیں۔ ان کی تربیت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ایلی سن گنز برگ کے پاس ہے۔
ایکوریم میں موجود ان ڈولفنز کی عمریں تین سے39 سال تک ہیں۔ ہر ڈولفن کا اپنا نام ہے جس سے اسے پکارا جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈولفن کی تقریبا چالیس مختلف اقسام ہیں۔ ایک ڈولفن کی لمبائی چار فٹ سے تیس فٹ جبکہ وزن چالیس کلو سے گیارہ ٹن تک ہو سکتا ہے۔ایلی سن کہتی ہیں کہ انسانوں کی طرح ہر ڈولفن عادات اور ذہانت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تربیتی مراحل کے دوران ہر ڈولفن دوسری ڈولفن سے مختلف نتائج دیتی ہے۔
ایکوریم کا ایک حصہ جیلی فش کے لیے مختص ہے۔ جیلی فش سطح ِ سمندر سے لے کرسمندر کی گہرائی تک پائی جاتی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ جیلی فش پچاس کروڑ سال سے ہمارے سمندروں میں موجود ہے۔
بالٹی مور کے ایکویریم کے اس حصے میں ہر چند سال بعد ایک عارضی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ گذشتہ تین برسوں سے یہاں صرف امریکہ سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے مختلف اقسام کی جیلی فش اکٹھی کی جا رہی ہیں ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے میں ماحول میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور آبی حیات کے بے دریغ شکار کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودہ ماحول میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بظاہر بے ضرر دکھائی دینے والی جیلی فش مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ جیلی فش کے یہ لمبے لمبے دھاگے دراصل اس کا ہتھیار ہیں۔ ان لمبے لمبے دھاگوں کے اندر چھوٹے چھوٹے کانٹے ہوتے ہیں جو وہ حملے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
ایکویریم میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر2005 ءمیں جب اس کی توسیع کا منصوبہ بنایا گیاتو اس میں ایک ایسا شعبہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جہاں براعظم آسٹریلیا کے منفرد موسموں اور ماحول کو پیش کیا جاسکے۔اس شعبے کے انچارج جان سی جگت ہیں ان کا کہناہے کہ یہاں پر آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے جانوروں کی مختلف اقسام رکھی گئی ہیں جن میں پانی اور خشکی پر رہنے والے جانور شامل ہیں۔۔
اس شعبے کا ایک خاص پہلو ، آسٹریلیا کی ایک نایاب مچھلی ہے جسے Sting Ray کہاجاتا ہے ۔ چار سے آٹھ فٹ تک کی یہ مچھلی انسان دوست ہے۔ اور اس کی خوراک چھوٹی مچھلیاں ہیں۔
This story was originally posted on VOA Urdu.