PortfolioUrduWeb Stories

الزائمرز سے بچاؤ اور علاج

ڈاکٹر جین سلوین کے لیے مطالعہ ایک دلچسپ مصروفیت ہے۔۔۔ اور کیوں نہ ہو؟ 52 سال تک امریکہ سمیت مختلف ممالک میں ہیلتھ فزیشن کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر جین کے نزدیک فارغ وقت کا نعم البدل اچھی کتاب کے سوا کچھ اور نہیں ۔

انہوں نے 1950 کے عشرے میں امریکی ریاست فلاڈیلفیا کے وومین میڈیکل کالج آف مائلز نائنس ٹیڈ سے طب کی ڈگری حاصل کی۔ اور گذشتہ پانچ برسوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بیٹے مائلز کے ساتھ امریکی ریاست ورجینیا میں ایک پر سکون زندگی گزار رہی ہیں۔ لیکن ہنستے مسکراتے اور شفقت بھرے اس چہرے کے پیچھے ایک دکھ بھری داستان بھی ہے۔ ایک ایسی داستان جس سے وہ خود بھی واقف نہیں ہیں ۔ وہ الزائمرز میں مبتلا ہیں۔

86سالہ ڈاکٹر جین کا دماغ ایک دو سالہ بچے کی مانند ہو چکا ہے اور وہ الزائمرز کی آخری سٹیج پر ہیں۔ حیرت انگیز اتفاق یہ ہے کہ آج جس الزائمرز کے ہاتھوں وہ آہستہ آہستہ زندگی کی بازی ہار رہی ہیں، کبھی اسی مرض کا علاج اور اس کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ان کی پیشہ ورانہ ترجیحات میں شامل تھا۔

مگر الزائمر زکے اس سفر میں ڈاکٹر جین اکیلی نہیں ۔ امریکہ کی الزائمرز ایسوسی ایشن کی جانب کے2011ء کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق اس وقت امریکہ میں 54 لاکھ جبکہ دنیا بھر میں تین کروڑ 56 لاکھ افراد الزائمر زکے مرض میں مبتلا ہیں۔ جبکہ اندیشہ ہے کہ 2030ء تک امریکہ میں الزائمرز کے مریضوں کی تعداد 77 لاکھ جبکہ دنیا بھر میں چھ کروڑ57 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

ڈاکٹر اسکاٹ ٹرنر واشنگٹن کے جارج ٹاؤن یونیورسٹی ہاسپیٹل میں یاداشت کی خرابی سے متعلق شعبے کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عموما 65یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں الزائمرز کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ انسانی روئیے میں تبدیلی اور یادداشت کی خرابی کی علامات الزائمرز کے پہلے مرحلے کی نشان دہی کرتی ہیں۔

الزائمرز سے بچاؤ اور علاج
الزائمرز سے بچاؤ اور علاج

وہ کہتے ہیں کہ اس بیماری کے پہلے مرحلے میں انسان کا دماغ نسبتا نئی باتیں محفوظ نہیں کرپاتا۔ پرانی یادیں اس مرحلے پر متاثر نہیں ہوتیں۔ لیکن نئی یادیں دماغ میں ٕمحفوظ کرنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ چیزیں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔ یا کبھی سامنے پڑی چیز کو ڈھونڈنے میں بہت وقت لگا دیتے ہیں۔ وہ دن میں بیس بیس مرتبہ ایک ہی سوال دہراتے رہتے ہیں۔

الزائمرز دراصل یادداشت کی بیماری کی ایک قسم ہے۔ جس میں انسانی دماغ اپنے امور درست طور پر ادا نہیں کر پاتا۔ الزائمرز میں مبتلا ہونے والے افراد کا دماغ وقت کے ساتھ ساتھ سکڑتا چلا جاتا ہے۔

ڈاکٹر انور شیخ ، جارج ٹاؤن اسپتال کے شعبہ ِ ریڈیالوجی اور نیوکلیئر میڈیسن سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک تحقیق دان اور طبی ماہرین الزائمرز کا کوئی حتمی طریقہ ِ علاج دریافت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، لیکن جدید ٹیکنالوجی کی مدد سےاب الزائمرز کا پتا لگانا مشکل نہیں رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ الزائمرز کی تشخیص کرکے مریضوں کی آئندہ زندگی کو چند کارآمد طریقوں کی مدد سے نسبتا آسان بنایا جا سکتا ہے۔ان کا کہناہے کہ جلد تشخیص ہوجانے کی صورت میں آپ مریض کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی آئندہ زندگی کے معمولات کی منصوبہ بندی کرلے ۔ اس سے قبل کہ دماغی صلاحتیں زیادہ متاثر ہوں وہ اپنی وصیت اور دوسرے امور نمٹا لے۔

امریکہ کی مختلف ریاستوں میں الزائمرز کے مسئلے کی سنگینی کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے معمر افراد کے لیے الزائمرزسینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ ان مراکز میں مختلف سرگرمیوں کے ذریعے الزائمر زکے مریضوں کی یادداشت بہتر یا مزید خراب ہونے سے بچانے کی کوششیں کی جا تی ہیں۔ جبکہ یہاں الزائمر کے مریضوں کے خاندان کو بھی دیکھ بھال سے متعلق طریقے سکھائے جاتے ہیں۔

الزائمرز کی آخری سٹیج میں انسان دماغی خلیوں کے کمزور ہونے یاتقریبا ختم ہوجا نے کے باعث روزمرہ امور نمٹانے کی صلاحیت سے بھی قاصر ہو جاتا ہے۔ اور اسے ہر وقت کسی نہ کسی کی مدد کی ضرورت رہتی ہے۔

امریکہ میں ڈاکٹر جین اور ان جیسے بہت سے مریضوں کے لیے اب کئی سہولتیں موجود ہیں۔ جبکہ جدید میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر رابطے کی وجہ سے بھی لوگ ایک دوسرے کو اس بیماری کے بارے میں اپنے تجربات سے آگاہ کرکے شعور و آگہی میں اضافہ کررہے ہیں۔

This story was originally posted on VOA Urdu.

Leave a Reply

Your email address will not be published.